اسٹیبلشمنٹ کی توہین ناقابل معافی جرم !!!!
پاکستان کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن کے صدر کیپٹن جبار نے کہا ہے کہ جیو نے جو قوالی رقص وغیرہ کے پس منظر میں لگا کر توہین صحابہ کی، وہ کئی بار ایسے ہی مناظر کے پیچھے دوسرے ٹی وی چینلز بھی چلا چکے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ اس وقت کیبل آپریٹر کہاں تھے؟
توہین رسالت، توہین اہل بیت اور توہین صحابہ سنگین جرم ہے لیکن جو سوال کیپٹن جبار نے اٹھایا ہے اس نے شک میں ڈال دیا ہے کہ جیو کے خلاف مہم کے پیچھے کچھ اور بات بھی تو نہیں؟علماء کہتے ہیں ، غلطی سے ایسا جرم ہو جائے اور معافی مانگ لی جائے تو اسے قبول کر لینا چاہئے۔ لیکن کیا یہی بات اسٹیبلشمنٹ کی توہین پر بھی کہی جا سکتی ہے؟ اس پر تو سب کا اتفاق ہے (علمائے کرام سمیت) کہ اس پر معافی ممکن نہیں، اس پر تو سزا مل کر رہے گی، ثابت کیا ہوا؟
پتہ نہیں کیا ثابت ہوا لیکن پاکستان میں توہینِ اسٹیبلشمنٹ تاریخی طور پر ناقابل معافی جرم ہے۔ اور یہ واحد جرم ہے جس میں ’’قانون ‘‘ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔ وزیراعظم ہو تو اسے بھی چھوڑا نہیں جاتا۔ نواز شریف نے کارگل کی شرارت کرنے پر مشرف کو بدل کر اسٹیبلشمنٹ کی توہین کی اور اٹک قلعہ میں ڈال دیئے گئے۔ سزائے موت کا فیصلہ ہوا لیکن جج ’’غداری‘‘ کرکے امریکہ چلا گیا یعنی عمر قید سنا کر بھاگ نکلا۔ اس کے بعد کسی دوسرے کیس میں سزائے موت دلوانے کے لئے ’’محب وطن ‘‘ جج کی تلاش شروع ہوئی۔ بہت مل جاتے لیکن بیچ میں سعودی عرب پڑ گیا جس کے تیل سے ہمارے ملک کی گاڑی چلتی تھی۔ طویل جلا وطنی کاٹ کر نواز شریف وطن واپس آئے اور زرداری کی ظلی اور ذیلی حکومت (اصل حکومت کس کی تھی، بتانے کی ضرورت نہیں) کے پانچ سال پورے ہونے پر بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے۔ خیال تھا کہ اب ماضی قصّہ ماضی بن گیا ہوگا لیکن توبہ کیجئے، توہین اسٹیبلشمنٹ کی سزا بھی کبھی ختم ہوتی ہے۔ اب دیکھ لیجئے، خفیہ ہاتھ کبھی اس بہانے تو کبھی اس بہانے، کبھی اس کروٹ تو کبھی اس کروٹ، نواز شریف کی سزا کا سلسلہ پھر وہیں سے شروع کرنا چاہتا ہے جہاں سے ٹوٹا تھا۔ چنانچہ تمام اہالیان پاکستان کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ چاہے کچھ بھی کریں، ہزار چھوڑو دو ہزار شہری قتل کر دیں، موقع ملے تو اربوں اور کھربوں روپے کی سرکاری رقم چوری کر لیں،بلیک واٹر کی ایجنسی لے لیں، قبضے گروپ بنا کر مسجدوں اور قبرستانوں پر بھی پلازے کھڑے کر لیں، امریکہ بھارت اسرائیل سمیت جس ملک کی چاہیں جاسوسی کریں، کچھ بھی کریں، کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ بس اسٹیبلشمنٹ کی توہین سے بچیں کہ یہ وہ جرم ہے جس کی کوئی معافی ہے نہ نظرثانی کی اپیل اس میں ہو سکتی ہے۔
رہا یہ سوال کہ توہین اہلبیت کرنے والے دوسرے چینلز کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی تو اس کا جواب بھی اسی نکتے میں ہے جو اوپر بیان ہوا۔ اور وہ یہ سوال ہے کہ کیا ان چینلز نے توہین اسٹیبلشمنٹ کی ؟ نہیں کی تو پھر مٹّی پاؤ جی!
صحافی
عبداللہ طارق سہیل
پاکستان کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن کے صدر کیپٹن جبار نے کہا ہے کہ جیو نے جو قوالی رقص وغیرہ کے پس منظر میں لگا کر توہین صحابہ کی، وہ کئی بار ایسے ہی مناظر کے پیچھے دوسرے ٹی وی چینلز بھی چلا چکے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ اس وقت کیبل آپریٹر کہاں تھے؟
توہین رسالت، توہین اہل بیت اور توہین صحابہ سنگین جرم ہے لیکن جو سوال کیپٹن جبار نے اٹھایا ہے اس نے شک میں ڈال دیا ہے کہ جیو کے خلاف مہم کے پیچھے کچھ اور بات بھی تو نہیں؟علماء کہتے ہیں ، غلطی سے ایسا جرم ہو جائے اور معافی مانگ لی جائے تو اسے قبول کر لینا چاہئے۔ لیکن کیا یہی بات اسٹیبلشمنٹ کی توہین پر بھی کہی جا سکتی ہے؟ اس پر تو سب کا اتفاق ہے (علمائے کرام سمیت) کہ اس پر معافی ممکن نہیں، اس پر تو سزا مل کر رہے گی، ثابت کیا ہوا؟
پتہ نہیں کیا ثابت ہوا لیکن پاکستان میں توہینِ اسٹیبلشمنٹ تاریخی طور پر ناقابل معافی جرم ہے۔ اور یہ واحد جرم ہے جس میں ’’قانون ‘‘ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔ وزیراعظم ہو تو اسے بھی چھوڑا نہیں جاتا۔ نواز شریف نے کارگل کی شرارت کرنے پر مشرف کو بدل کر اسٹیبلشمنٹ کی توہین کی اور اٹک قلعہ میں ڈال دیئے گئے۔ سزائے موت کا فیصلہ ہوا لیکن جج ’’غداری‘‘ کرکے امریکہ چلا گیا یعنی عمر قید سنا کر بھاگ نکلا۔ اس کے بعد کسی دوسرے کیس میں سزائے موت دلوانے کے لئے ’’محب وطن ‘‘ جج کی تلاش شروع ہوئی۔ بہت مل جاتے لیکن بیچ میں سعودی عرب پڑ گیا جس کے تیل سے ہمارے ملک کی گاڑی چلتی تھی۔ طویل جلا وطنی کاٹ کر نواز شریف وطن واپس آئے اور زرداری کی ظلی اور ذیلی حکومت (اصل حکومت کس کی تھی، بتانے کی ضرورت نہیں) کے پانچ سال پورے ہونے پر بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے۔ خیال تھا کہ اب ماضی قصّہ ماضی بن گیا ہوگا لیکن توبہ کیجئے، توہین اسٹیبلشمنٹ کی سزا بھی کبھی ختم ہوتی ہے۔ اب دیکھ لیجئے، خفیہ ہاتھ کبھی اس بہانے تو کبھی اس بہانے، کبھی اس کروٹ تو کبھی اس کروٹ، نواز شریف کی سزا کا سلسلہ پھر وہیں سے شروع کرنا چاہتا ہے جہاں سے ٹوٹا تھا۔ چنانچہ تمام اہالیان پاکستان کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ چاہے کچھ بھی کریں، ہزار چھوڑو دو ہزار شہری قتل کر دیں، موقع ملے تو اربوں اور کھربوں روپے کی سرکاری رقم چوری کر لیں،بلیک واٹر کی ایجنسی لے لیں، قبضے گروپ بنا کر مسجدوں اور قبرستانوں پر بھی پلازے کھڑے کر لیں، امریکہ بھارت اسرائیل سمیت جس ملک کی چاہیں جاسوسی کریں، کچھ بھی کریں، کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ بس اسٹیبلشمنٹ کی توہین سے بچیں کہ یہ وہ جرم ہے جس کی کوئی معافی ہے نہ نظرثانی کی اپیل اس میں ہو سکتی ہے۔
رہا یہ سوال کہ توہین اہلبیت کرنے والے دوسرے چینلز کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی تو اس کا جواب بھی اسی نکتے میں ہے جو اوپر بیان ہوا۔ اور وہ یہ سوال ہے کہ کیا ان چینلز نے توہین اسٹیبلشمنٹ کی ؟ نہیں کی تو پھر مٹّی پاؤ جی!
صحافی
عبداللہ طارق سہیل
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں